غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اور اسکے عزائم
غزہ کی پٹی میں ایک ماہ کی اسرائیلی وحشیانہ بمباری اور فوجی مہم کے بعد غزہ اور حماس کے بارے میں اسرائیلی منصوبہ بڑی حد تک واضح ہوگیا،
غزہ میں اسرائیل کے ناپاک عزائم اور اسکے منصوبے کی حمایت کرنے والے اسرائیلی اور امرکی حکام کے بیانات کے ذریعے بہت کچھ واضح ہوگیا،
امریکی وزیرخارجہ بلنکن کا عمان میں دیا گیا بیان کہ "حماس تحریک کو ختم کئے بغیر جنگ نہیں رکے گی"۔
میں غزہ کی جنگ میں اسرائیل اور صیہونی طاقتوں کے منصوبے اور انکے اہداف کا خلاصہ چند نکات میں بیان کرتا ہوں ۔
نمبر1 غزہ کے زیادہ سے زیادہ محلوں گھروں بنیادی ڈھانچے اور خدمات کو تباہ کرنا جو لوگ وہاں سے نکلنے سے انکار کرتے ہیں انکی زندگی کو ناممکن یا انتہائی مشکل بنادینا,
ایک ماہ کی مسلسل بمباری کےبعد اب وہاں یہ حالت ہے گھر یاتو تباہ ہوگئے یا وہاں رہنا ناممکن ہوگیا،پھر اسرائیل اور اسکے پشت پناہوں نے انفراسٹرکچر کا رخ کیا اور پانی کے ٹینکوں بجلی اسٹیشنوں اور یہاں تک کہ سولر وانرجی سے چلنے والے پلانٹ و جنریٹروں پر بھی بمباری کی۔
پھر ہسپتال، سکول ،مساجد، گرجا گھر غرض تمام وہ سہولتیں جو انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے چاہئیے تھیں تباہ کردیں۔
اورتاحال تمام ان سہولیات کو تباہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے ہے جو غزہ کے لوگوں کو اپنے ملک میں زندہ رہنے میں مدد دے سکتے ہیں اور نقل مکانی کے منصوبے کو ناکام بناتے ہیں۔
نمبر 2 امریکہ نے اعلان کیا کہ اسکا مقصدایک محفوظ راستہ کھولنا ہے اس سے غزہ کی آبادی کو مصر منتقل کرنے کے منصوبے کی تصدیق ہوتی ہے، جو انکے لئے 2015 سے تیار کیا گیا تھا۔
جسکے تحت مصری حکومت نے اسکی درخواست پر عمل درآمد کیا تھا جس میں سرنگوں کو مسمار کرنا غزہ کی سرحد سے ملحقہ شہروں اور دیہاتوں کو بلڈوز کرنا، اسکے لوگوں پر محاصرہ سخت کرنا اور شہروں یا رہائشی کمیونٹیز کا قیام شامل ہے، غزہ کے بے گھر ہونے والوں کیلئے ایک کھلی جیل کے طور پر کام کرنے کے لئے دیوار کی تعمیر ۔ امریکی صدر جو بائیڈن اور اسرائیلی رہنماؤں نے غزہ کے لوگوں کو مصر میں بےگھر کرنے کے بارے میں متعدد بار بات کی اور ہر بار انہیں مخالفت یاسودے بازی ملی،
جوبائیڈن نے اس کے بارے میں اپنی آخری تقریرمیں کہا " بے گھر ہونا عارضی ہوگا مستقل نہیں ہوگا"۔
(اسکی یہ تقریر جھوٹ اور دھوکہ دہی پر مبنی تقریر تھی۔)
اسرائیل غزہ میں سال2005 میں ذلت ورسوائی اٹھانے کے بعد اس سے کنارہ کشی کرچکا تھااسکے علاوہ امریکی کانگریس نے اسرائیل کے لئے جو رقم منظور کی (16 ملین ڈالر ) اسکا ایک حصہ نقل مکانی کے عمل کے لئے مختص کیا گیا تھا اس رقم کے بارے میں بہت سی رپورٹیں شائع ہوئ ہیں جو مصری حکومت اسکے لئے وصول کرسکتی ہےجس میں مصر پر قرض کے سود کی منسوخی کے علاوہ شدید مشکلات میں گھری کٹھ پتلی السیسی کی حکومت کو معاشی طوفان کے بحران سے مستحکم کرنا بھی شامل ہے۔ آنے والے دنو ں میں اس جرم کے بارے میں مزید انکشاف کریں گے جس میں اسرائیل امریکہ مصر اور دوسرے اعلانیہ و پوشیدہ بہت سے فریق شامل ہیں۔
نمبر3 غزہ پر مکمل اور عارضی فوجی قبضہ اسکے پڑوس کو زمین پر برابر کرنے کے بعد حماس کو عسکری طور پر ختم کرنے اسے غیر مسلح کرنے اسکے رہنماؤں کو ختم کرنے اور اسکے ارکان کے خلاف مقدمات چلانے کے بعد غزہ کا مکمل کنٹرول حاصل کرنے کا ہے۔
نمبر4 اسکے بعد غزہ کو بین الاقوامی سرپرستی میں رکھنا اسے فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا یا اسے اس حیثیت پر واپس لاناجو 1967 سے پہلے تھی مصری فوجی حکمران کے زیر انتظام تھا۔ ترک صدر نے غزہ کی پٹی کو اقوام متحدہ کی افواج اور بین الاقوامی انتظامیہ کی نگرانی میں رکھنے کے منصوبے پرتوجہ دلائ۔ 4 نومبر کو ترکی نے باقاعدہ اعلان کیا کہ وہ اپنا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہے غزہ میں ترک و قبرص انتظامیہ ہوگی۔ لیکن اسرائیل کے لئے اسے قبول کرنا ناممکن ہے اسکے علاوہ غزہ میں جسطرح کا ظلم اور بربریت ہوری ہے اس پر نیٹو کے اتحادی ترکی کا موقف اسکے معیار سے بہت نیچے ہے۔
مختصراً یہ صیہونیت و اسرائیل کا غزہ کی پٹی میں منصوبہ ہے اگر وہ اس پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔
مشرقِ وسطیٰ میں امن کیلئے امریکہ کے سابق ایلچی ڈینس راس نے گزشتہ ہفتے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون شائع کیا تھا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ غزہ کی پٹی پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ خطے کے کئ عرب حکمرانوں سے بات ہوئ اور انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ حماس کے خاتمے کی حمایت کرتے ہیں لیکن وہ اپنے لوگوں کے خوف سے اسکا اعلان کرنے سے گھبراتے ہیں ، اور اگر ہم پچھلے ایک ماہ میں عرب حکمرانوں اور حکومتوں کے رویے پر نظر ڈالیں جو غزہ میں ہونے والے بے مثال جنگی جرائم کے حوالے سے خاموش ہیں تو یہ بات بآسانی سمجھ آتی ہے کہ اسرائیل کم ازکم عربوں کی حمایت یا خاموشی کے بغیر ایسا نہیں کرسکتا تھا۔
یہ اسرائیل اور اسکے پشت پناہوں کا خواب اور منصوبہ ہے جسے وہ مغربی ممالک اور عربوں کی حمایت سے غزہ میں نافذ کرنا چاہتا ہے لیکن
یہاں اہم سوال یہ ھیکہ کیا یہ اپنے اس منصوبے پر عمل درآمد کرسکیں گے؟ حماس کے جوابی منصوبے کی روشنی میں معاملہ کافی مشکل اور پیچیدہ ہے۔جس پر آئندہ آنے والے مضمون میں ان شاءاللہ ذکرکرونگا۔
کلیم جعفر
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں